کہانی گھر

کامیابی کا جھوٹ

طارق نے فون پر اپنے پرانے دوست سمیع سے بات کرتے ہوئے اپنی آواز میں اہمیت پیدا کی۔ "ارے یار، میں تو ان دنوں بہت مصروف ہوں۔ اپنی نئی کمپنی کا دفتر سجوا رہا ہوں۔ ویسے تمہیں معلوم ہے میری نئی گاڑی آ گئی ہے؟ جرمنی کی ہے، پچھلے ماہ ہی امپورٹ کرائی ہے۔" اس کے الفاظ میں ایک ایسی ریا کاری تھی جو صرف وہی محسوس کر سکتا تھا۔

سمیع نے فون پر ہی تعریف کی۔ "واہ طارق! تم تو بہت آگے نکل گئے۔ ہمیں بھی تو اپنے شاندار دفتر میں بلاؤ۔" طارق نے گھبراہٹ میں جواب دیا۔ "بالکل بلاؤں گا۔ اگلے ہفتے آ جانا۔" فون رکھتے ہی طارق کو احساس ہوا کہ اس نے کیا کر ڈالا۔ وہ تو ایک چھوٹے سے پرائیویٹ آفس میں کلرک تھا اور بس پر سفر کرتا تھا۔

اگلے ہفتے جب سمیع آنے کا وقت قریب آیا تو طارق نے اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے عجیب و غریب حربے سوچنا شروع کیے۔ اس نے اپنے کزن سے ایک مہنگی گاڑی ایک دن کے لیے ادھار مانگی اور اپنے مالک سے درخواست کی کہ وہ ایک دن کے لیے اپنے آفس کا استعمال کر سکے۔

جس دن سمیع آیا، طارق نے اپنے آپ کو بہت مصروف بنا کر پیش کیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک فون تھا جو درحقیقت بند تھا، اور وہ مصنوعی بات چیت کر رہا تھا۔ "جی ہاں مسٹر احمد، میں آپ کا پروپوزل دیکھ رہا ہوں۔ یہ تو بہت اچھا ہے۔" سمیع یہ سب دیکھ کر متاثر ہو رہا تھا۔

درحقیقت یہ آفس طارق کے مالک کا تھا جسے اس نے ایک دن کے لیے قرض لیا تھا۔ ڈیسک پر پڑے کاغذات درحقیقت پرانے فائلیں تھیں جنہیں طارق نے الٹ پلٹ کر رکھ دیا تھا۔ کمپیوٹر کی سکرین پر وہ ایک خالی ایکسل شیٹ کھول کر بیٹھا تھا۔

سمیع نے کہا۔ "طارق، تمہارا دفتر تو بہت شاندار ہے۔ تم واقعی کامیاب ہو گئے ہو۔" طارق نے فخریہ انداز میں سر ہلایا۔ "ہاں یار، محنت کرنی پڑتی ہے۔" اسی دوران ایک حقیقی ملازم نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ "سر، یہ آپ کے دستخطوں کے لیے ہیں۔" طارق نے گھبراہٹ سے کاغذات لے لیے اور جھوٹ موٹ میں دستخط کر دیے۔

دوپہر کے کھانے پر طارق سمیع کو ایک مہنگے ریستوران میں لے گیا۔ جب بیل آئی تو طارق نے گھبراہٹ سے اپنے بٹوے میں دیکھا۔ اس کے پاس تو اتنی رقم نہیں تھی۔ اس نے کہا۔ "ارے، میں تو اپنا کارڈ گھر بھول آیا ہوں۔" سمیع نے فوراً کہا۔ "کوئی بات نہیں، میں ادا کرتا ہوں۔"

شام کو جب سمیع کو اسٹیشن چھوڑنے گئے تو طارق کی ادھاری گاڑی میں اچانک خرابی ہو گئی۔ کار نے آوازیں نکالنا شروع کیں اور دھواں نکلنے لگا۔ سمیع نے پوچھا۔ "کیا ہوا؟" طارق نے گھبرا کر کہا۔ "کچھ نہیں، یہ تو نیئر ہے۔ جرمن گاڑیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔"

آخرکار جب سمیع چلا گیا تو طارق کو شدید شرمندگی محسوس ہوئی۔ اس نے سمیع کو سچ بتانے کا فیصلہ کیا۔ اگلے دن اس نے سمیع کو فون کیا اور ساری حقیقت بتا دی۔

حیرت کی بات یہ ہوئی کہ سمیع نے ہنس کر کہا۔ "طارق، میں پہلے ہی سب جان گیا تھا۔ تمہاری گاڑی کا نمبر پلیٹ تو تمہارے کزن کے نام کی تھی۔ اور تمہارے آفس میں جو لڑکی آئی تھی، اس نے تمہیں 'کلرک صاحب' کہہ کر پکارا تھا۔"

طارق نے معافی مانگی تو سمیع نے کہا۔ "دوستی میں کامیابی یا ناکامی سے فرق نہیں پڑتا۔ تم ہمیشہ میرے دوست رہو گے، چاہے تم کلرک ہو یا ڈائریکٹر۔"

اس واقعے کے بعد طارق نے کبھی جھوٹ نہ بولنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے محنت سے کام کیا اور چند سالوں بعد واقعی ایک کامیاب کاروباری شخصیت بن گیا۔ مگر اس بار جب اس نے سمیع کو اپنی کامیابی کی خبر دی تو وہ بالکل سچی تھی۔

آج دونوں دوست اکثر ملتے ہیں اور اس واقعے پر ہنستے ہیں۔ طارق کہتا ہے۔ "سمیع، تمہیں پتہ ہے وہ جھوٹا دن میری زندگی کا سب سے اہم دن تھا۔ اس دن میں نے سیکھا کہ سچائی ہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔"

اور سمیع جواب دیتا ہے۔ "ہاں یار، اور تمہاری وہ جرمن گاڑی جس سے دھواں نکل رہا تھا، وہ واقعی بہت 'نیئر' تھی۔" دونوں ہنستے ہیں اور پرانی یادوں میں کھو جاتے ہیں۔