کہانی گھر

سسرال والوں کا اچانک دورہ

جاوید آفس سے تھکا ہارا گھر واپس آیا تو اس کا موبائل بار بار بج رہا تھا۔ فون اٹھاتے ہی اس کے کان کھڑے ہو گئے۔ اس کی ساس کا پرجوش آواز میں کہہ رہی تھیں، "بیٹا، ہم اگلے گاؤں سے واپس آ رہے ہیں اور راستے میں تمہارے پاس آ رہے ہیں۔ تقریباً آدھے گھنٹے میں پہنچ جائیں گے۔" جاوید کی تو جان ہی نکل گئی۔ اس کی بیوی ثناء تو اپنی بہن کے یہاں گئی ہوئی تھی اور کل واپس آئے گی۔ گھر تو ایسا لگ رہا تھا جیسے طوفان آیا ہو۔

جاوید نے فوراً کام شروع کیا۔ پہلے اس نے سارے برتن اکٹھے کیے جو کچن میں کئی دنوں سے پڑے تھے۔ صابن کا جھاگ اس کے ہاتھوں سے چھلک رہا تھا اور پانی اس کے کپڑوں پر پڑ رہا تھا۔ برتن دھوتے دھوتے اسے خیال آیا کہ کمرے بھی تو صاف کرنے ہیں۔ وہ دوڑتا ہوا کمرے میں آیا تو اس کا پاؤں کھلونے پر پھسل گیا اور وہ گرتے گرتے بچا۔

کپڑے، کتابیں، اخبارات ہر جگہ بکھرے پڑے تھے۔ جاوید نے ایک بڑا تھیلا اٹھایا اور سارا سامان اسی میں ٹھونسنا شروع کر دیا۔ بیڈروم کا حال سب سے برا تھا۔ ثناء کے کپڑے، جاوید کے کپڑے، اور بچوں کے کھلونے سب اکٹھے ہو رہے تھے۔ جاوید نے فیصلہ کیا کہ سارا سامان الماری میں ہی دھکیل دیتا ہے۔ جب وہ الماری بند کرنے لگا تو دراز پھنس گئی اور اسے زور لگا کر بند کرنا پڑا۔

اب باتھ روم کی باری تھی۔ وہاں تو حقیقی جنگ کا منظر تھا۔ گیلا تولیہ فرش پر پڑا تھا، صابن کے ڈبے کھلے ہوئے تھے، اور آئینے پر انگلیوں کے نشانات صاف نظر آ رہے تھے۔ جاوید نے جلد از جلد صفائی شروع کی۔ وہ جانتا تھا کہ وقت کم ہے اور سسرال والے کسی بھی لمحے آ سکتے ہیں۔

کچن کا حال دیکھ کر تو جاوید کا دل بیٹھ گیا۔ فریج میں کچھ بھی تیار نہیں تھا۔ اسے خیال آیا کہ سسرال والوں کے لیے کھانا بھی تو بنانا ہے۔ اس نے فریج کھولا تو اندر سے بس پرانا دہی اور کچھ سبزیاں ہی ملیں۔ اس نے فیصلہ کیا کہ چائے ہی بنا کر پیش کر دے گا۔

جب وہ چائے بنانے لگا تو اسے پتہ چلا کہ چینی ختم ہو گئی ہے۔ گھبرا کر وہ باہر دوڑا اور قریبی دکان سے چینی لے آیا۔ چائے بناتے ہوئے اس کا ہاتھ جل گیا مگر اس کے پاس روکنے کا وقت نہیں تھا۔

اسی دوران گھنٹی بجی۔ جاوید کا دل دھک سے رہ گیا۔ وہ جلدی سے آئینے کے سامنے گیا اور اپنے بال درست کیے۔ پھر دروازہ کھولا۔ سامنے اس کی ساس، سسر، اور نند کھڑی تھیں۔ تینوں کے چہرے پر مسکراہٹیں تھیں۔

اند آتے ہی ساس نے کہا، "ارے، یہاں تو بہت سناٹا ہے۔ ثناء کہاں ہے؟" جاوید نے گھبرا کر جواب دیا، "وہ... وہ مارکیٹ گئی ہوئی ہے۔ جلدی آ جائے گی۔" اس کی آواز میں کانپن تھا۔

ساس نے گھر کے اندر نظر دوڑائی۔ "تمہارا گھر تو بہت صاف ستھرا ہے۔" جاوید نے راحت کی سانس لی۔ مگر یہ راحت زیادہ دیر تک نہ رہی۔ سسر نے کہا، "ہم نے کھانا گھر پر ہی کھانا ہے۔ ہم بہت بھوکے ہیں۔"

جاوید کا منہ سوکھ گیا۔ اس نے کہا، "جی ضرور... میں ابھی تیاری کرتا ہوں۔" وہ کچن میں جا کر پریشان ہو گیا۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا بنائے۔ آخر اس نے فیصلہ کیا کہ سادہ سی دال اور چاول ہی بنا دیتا ہے۔

جب وہ دال بنانے لگا تو اسے پتہ چلا کہ مصالحے کہاں رکھے ہیں۔ اس نے ہر الماری کو الٹا پلٹا دیا۔ آخر کار اسے مصالحے ملے، مگر نمک نہیں ملا۔ اسے دکان پر دوبارہ جانا پڑا۔

واپس آ کر اس نے دال چڑھائی۔ تھوڑی دیر بعد اسے خوشبو آئی۔ وہ دوڑا دوڑا کچن میں آیا۔ دال جل چکی تھی۔ اسے دوبارہ بنانا پڑا۔

اسی دوران نند نے آواز دی، "بھائی جی، پانی کا گلاس تو دے دیں۔" جاوید نے جلدی سے گلاس دیا، مگر وہ اس کا ہاتھ چھوٹ گیا اور پانی فرش پر گر گیا۔ ساس نے کہا، "ارے، تم تو بہت گھبرا رہے ہو۔ کیا بات ہے؟"

جاوید نے پسینہ صاف کیا۔ "نہیں، بس... گرمی ہے۔" اس نے پنکھا تیز کر دیا۔

جب کھانا تیار ہوا تو سب کھانے کے کمرے میں آئے۔ جاوید نے ڈرتے ڈرتے دال پیش کی۔ سسر نے پہلا نوالہ منہ میں ڈالا ہی تھا کہ ان کا چہرہ بگڑ گیا۔ "یہ دال میں نمک ہی نہیں ڈالا؟" جاوید کو یاد آیا کہ وہ نمک ڈالنا ہی بھول گیا تھا۔

ساس نے کہا، "کوئی بات نہیں، ہم نمک ڈال لیں گے۔" مگر انہوں نے جب نمک کی ڈبیا اٹھائی تو وہ خالی تھی۔ جاوید کو یاد آیا کہ وہ نمک تو لایا تھا مگر اسے ڈبیا میں ڈالنا بھول گیا تھا۔

اب سب کے سامنے بے نمک دال اور خالی نمک دان تھا۔ جاوید شرمندہ ہو کر کھڑا تھا۔ ساس نے ہنس کر کہا، "لگتا ہے آج تمہارا دن نہیں ہے۔"

اسی دوران دروازہ کھلا اور ثناء اندر آئی۔ وہ حیران رہ گئی جب اس نے اپنے والدین کو دیکھا۔ جاوید نے فوراً اسے ایک طرف لے جا کر ساری بات بتائی۔ ثناء ہنس پڑی۔

ثناء نے فوراً کام سنبھالا۔ اس نے دوبارہ کھانا تیار کیا۔ تھوڑی ہی دیر میں گھر میں خوشگوار ماحول ہو گیا۔ ساس نے جاوید سے کہا، "بیٹا، تم نے بہت کوشش کی۔ ہم جانتے ہیں کہ تمہیں یہ سب نہیں آتا۔"

جب وہ رخصت ہونے لگے تو سسر نے جاوید کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ "آج کی شام ہم نے کبھی نہیں بھلائیں گے۔ تم سچ مچ بہت ہنسوڑ ہو۔"

جاوید نے راحت کی سانس لی۔ اس نے ثناء سے کہا، "آج میں نے سیکھ لیا کہ تم روزانہ کتنا کام کرتی ہو۔" ثناء نے مسکراتے ہوئے کہا، "اب سمجھ آئی میری محنت کی؟"

اس واقعے کے بعد جاوید نے گھر کے کاموں میں ثناء کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اور آج بھی جب سسرال والے آتے ہیں تو وہ اس دن کو یاد کر کے ہنستے ہیں جب جاوید نے بے نمک دال پکائی تھی۔

کہانی کیسے لگی؟

اپنا تبصرہ لکھیں

علی احمد - واہ! عمران بھائیکمال کا ہے 😂 سسرال والوں کے ساتھ میرا بھی ایسا ہی تجربہ ہے!
2 گھنٹے پہلے
فاطمہ بیگم - ہاہاہا! اُملیٹ والی جگہ تو مر گئی 😍 بہت مزہ آیا پڑھ کر!
4 گھنٹے پہلے