کہانی گھر

غلط فون نمبر

سورج ڈھل چکا تھا اور احمد اپنے دفتر کی مصروفیات کے بعد تھکا ہارا گھر لوٹ رہا تھا۔ اچانک اسے یاد آیا کہ اسے اپنے باس کو ایک اہم رپورٹ کے بارے میں فون کرنا ہے۔ تھکاوٹ کے عالم میں اس نے جلدی جلدی ایک نمبر ڈائل کیا۔ فون کے دوسری طرف ایک نرم اور شائستہ آواز نے جواب دیا، "ہیلو؟" احمد نے سمجھا کہ یہ اس کے باس کی آواز ہے اور فوراً معاملے کی سنگینی کے پیش نظر بات شروع کر دی، "سر، وہ رپورٹ مکمل ہو گئی ہے، کل آپ کے ڈیسک پر ہو گی۔" فون کے پار سے آواز آئی، "رپورٹ؟ کون سی رپورٹ؟" احمد نے حیران ہو کر کہا، "وہی جو آپ نے کل اتنی تاکید کے ساتھ کہی تھی نا؟" ایک لمحے کی خاموشی کے بعد آواز آئی، "شاید آپ کسی اور سے بات کر رہے ہیں۔" احمد نے فون دیکھا تو اسے احساس ہوا کہ اس سے ایک ہندسے کی غلطی ہو گئی ہے۔ شرمندہ ہو کر اس نے معافی مانگی اور فون بند کر دیا۔

لیکن اگلے دن پھر وہی غلطی ہو گئی۔ احمد نے ایک بار پھر وہی نمبر ڈائل کر دیا۔ اس بار فون اٹھانے والے نے ہنس کر کہا، "کیا آپ پھر وہی رپورٹ والے صاحب ہیں؟" احمد نے معذرت کرتے ہوئے کہا، "مجھے افسوس ہے، میں نے غلط نمبر ملایا ہے۔" مگر فون کے پار والے شخص نے کہا، "کوئی بات نہیں، میں فاطمہ ہوں۔ آپ کا نام کیا ہے؟" احمد نے اپنا نام بتایا اور مختصر سی بات چیت کے بعد فون بند کر دیا۔ اسے یہ بات عجیب لگی کہ ایک اجنبی لڑکی اس سے اس طرح بات کر رہی تھی۔

تیسرے دن جب احمد نے پھر وہی نمبر ڈائل کیا تو فاطمہ نے کہا، "میں جانتی تھی کہ آپ پھر فون کریں گے۔" احمد حیران ہوا، "آپ کو کیسے پتہ؟" فاطمہ نے ہنستے ہوئے جواب دیا، "آپ کے پہلے دو فون بھی اسی وقت آئے تھے۔ لگتا ہے آپ اس وقت دفتر سے نکلتے ہی میرے نمبر پر فون کر دیتے ہیں۔" احمد کو احساس ہوا کہ واقعی یہ بات درست تھی۔ اس دن دونوں نے تقریباً آدھے گھنٹے تک بات کی۔ فاطمہ نے بتایا کہ وہ ایک لائبریری میں کام کرتی ہے اور شاعری پڑھنا پسند کرتی ہے۔

ایک ہفتے تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ہر روز شام کو احمد فاطمہ کو فون کرتا اور وہ گھنٹوں بات چیت ہوتی۔ احمد نے محسوس کیا کہ وہ فاطمہ کی آواز سننے کا منتظر رہتا ہے۔ ایک دن فاطمہ نے کہا، "آج آپ کی آواز میں تھکاوٹ ہے، کیا بات ہے؟" احمد نے اپنے دفتر کے مسائل بیان کیے تو فاطمہ نے نرمی سے سمجھایا اور اس کی ہمت بندھائی۔ احمد کو عجیب سا لگا کہ ایک اجنبی شخص اس کی پریشانیوں کو اتنی خلوص سے سن رہا ہے۔

دوسرے ہفتے دونوں نے اپنی اپنی زندگیوں کے بارے میں بتانا شروع کیا۔ فاطمہ نے اپنے خوابوں کا ذکر کیا، اپنی پسند ناپسند کی بات کی۔ احمد نے محسوس کیا کہ وہ فاطمہ کو جاننے لگا ہے، حالانکہ اس نے اسے کبھی دیکھا تک نہیں تھا۔ ایک دن فاطمہ نے کہا، "کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ عجیب بات ہے؟ ہم ایک دوسرے کو جانتے تک نہیں مگر روز بات کرتے ہیں۔" احمد نے کہا، "شاید یہ قسمت کا کھیل ہے۔"

ایک مہینے بعد دونوں کی بات چیت میں اور گہرائی آ گئی۔ وہ اپنے دکھ سکھ بانٹنے لگے۔ فاطمہ نے اپنے گھر کے مسائل بتائے، احمد نے اپنے خوابوں کا اظہار کیا۔ دونوں نے محسوس کیا کہ وہ ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ ایک دن احمد نے کہا، "فاطمہ، کیا ہم مل سکتے ہیں؟" فون کے دوسری طرف خاموشی چھا گئی۔ پھر فاطمہ نے کہا، "شاید ابھی نہیں۔"

ایک شام جب احمد نے فون کیا تو فاطمہ کی آواز میں اداسی تھی۔ اس نے بتایا کہ اس کے والد اس کی شادی کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ احمد کا دل ڈوب گیا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ فاطمہ کے بارے میں کچھ زیادہ ہی محبت محسوس کرنے لگا ہے۔ اس نے کہا، "فاطمہ، میں تم سے ملنا چاہتا ہوں۔" اس بار فاطمہ نے ہاں کہہ دی۔ دونوں نے اگلے روز شام کو شہر کے ایک پارک میں ملنے کا فیصلہ کیا۔

ملاقات کے دن احمد گھبراہٹ محسوس کر رہا تھا۔ وہ پارک میں ایک بینچ پر بیٹھا فاطمہ کا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ فاطمہ کیسی ہوگی؟ کس رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہوگی؟ اچانک اس کی نظر ایک لڑکی پر پڑی جو ادھر ہی آ رہی تھی۔ لڑکی نے اسے دیکھا اور مسکرائی۔ احمد نے پوچھا، "کیا آپ فاطمہ ہیں؟" لڑکی نے حیران ہو کر کہا، "نہیں، میں تو یہاں اپنے بھائی کا انتظار کر رہی ہوں۔"

تھوڑی دیر بعد ایک اور لڑکی آئی۔ اس نے احمد کو دیکھا اور قریب آ کر کہا، "کیا آپ احمد ہیں؟" احمد نے خوشی سے کہا، "جی ہاں، اور آپ فاطمہ؟" لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا، "نہیں، میں انجم ہوں۔ فاطمہ میری بہن ہے۔" احمد حیران رہ گیا۔ انجم نے بتایا، "فاطمہ میری معذور بہن ہے۔ وہ پیدائشی طور پر بینائی سے محروم ہے۔ وہ آج آ نہیں سکتی، اس لیے مجھے بھیج دیا۔"

احمد کو سب کچھ سمجھ میں آ گیا۔ فاطمہ کی نرم آواز، اس کی حساسیت، اس کی شاعری سے محبت - سب کچھ اس کی معذوری کی وجہ سے تھا۔ انجم نے بتایا کہ فاطمہ احمد سے ملنا چاہتی تھی مگر اسے ڈر تھا کہ احمد اس کی معذوری کے بعد اس سے بات کرنا بند نہ کر دے۔ احمد نے کہا، "مجھے فاطمہ سے اس کی معذوری کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس کی شخصیت کی وجہ سے محبت ہے۔"

اگلے دن احمد فاطمہ کے گھر پہنچا۔ فاطمہ اس کا انتظار کر رہی تھی۔ جب احمد نے اس کا ہاتھ تھاما تو فاطمہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے کہا، "میں ڈر رہی تھی کہ آپ مجھے دیکھ کر چلے جائیں گے۔" احمد نے جواب دیا، "تمہاری شخصیت تمہاری آنکھوں سے کہیں زیادہ خوبصورت ہے۔"

اس ملاقات کے بعد دونوں کا رشتہ اور مضبوط ہو گیا۔ احمد نے فاطمہ کے گھر والوں سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ وہ فاطمہ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ ابتدا میں فاطمہ کے والد کو اعتراض تھا مگر جب انہوں نے احمد کے خلوص کو دیکھا تو وہ راضی ہو گئے۔

آج احمد اور فاطمہ شادی شدہ زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ اکثر اس دن کو یاد کرتے ہیں جب احمد سے غلط فون نمبر ملا تھا۔ فاطمہ کہتی ہے، "تمہاری یہ غلطی ہماری زندگی کی سب سے بڑی صحیح بات ثابت ہوئی۔" احمد مسکراتا ہے اور کہتا ہے، "قسمت نے تمہیں میرے لیے چنا تھا، چاہے راستہ غلط نمبر ہی سے کیوں نہ ہو۔"

اور اس طرح ایک غلط فون نمبر نے دو دلوں کو ملا دیا، ثابت کیا کہ محبت کے راستے عجیب ہو سکتے ہیں مگر منزل خوبصورت ہوتی ہے۔ آج بھی جب احمد فون کرتا ہے تو فاطمہ ہنستے ہوئے کہتی ہے، "کیا پھر غلط نمبر ملا ہے؟" اور دونوں خوشی سے ہنس پڑتے ہیں۔

کہانی کیسے لگی؟

اپنا تبصرہ لکھیں

احمد رضا - واہ! غلط نمبر سے سچی دوستی 😍 میرا بھی ایسا ہوا تھا!
1 گھنٹہ پہلے
عائشہ خان - ہاہاہا! سلیم بھائی بننا تو کمال 😂 بہت مزہ آیا!
3 گھنٹے پہلے