کہانی گھر

خاندانی پکنک

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خاندان کے ہر فرد کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ رہی تھی جب انہوں نے پکنک کا پروگرام بنایا۔ بچے تو رات بھر سوتے ہی نہیں رہے تھے۔ صبح سویرے ہی سب تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔ ننھی زینب نے اپنا پسندیدہ کھلونا بیگ میں ڈالا، جبکہ اس کا بھائی حارث نے فٹ بال کو ہر صورت ساتھ لے جانے پر اصرار کیا۔ بزرگ دادی اماں نے کہا، "بیٹا، ہم تو بس تھوڑی سی تازہ ہوا کھا کر آئیں گے، اتنا سامان کیوں لے جا رہے ہو؟" مگر بچوں کی خوشی دیکھ کر وہ بھی مسکرا دیں۔

گاڑی میں سامان لادتے وقت ایک عجیب منظر تھا۔ حارث کے والد عمران صاحب ہر چیز کو ترتیب سے رکھنے کی کوشش کر رہے تھے، جبکہ بچے بے ترتیبی سے سامان پھینک رہے تھے۔ دادی اماں نے اپنا خاص تھیلا گاڑی کے پیچھے رکھا جس میں وہ ہمیشہ ضروری دوائیاں اور کچھ نہ کچھ کھانے کی چیزیں رکھتی تھیں۔ زینب کی ماں ثناء نے کھانے کا سامان الگ سے پیک کیا تھا، جس میں سب کے پسندیدہ پکوان شامل تھے۔

جب گاڑی finally چلی تو سب کے چہرے پر مسکراہٹیں تھیں۔ بچے گانے گا رہے تھے، بڑے انہیں دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔ راستے میں حارث نے پوچھا، "ابو، کتنی دیر لگے گی؟" عمران صاحب نے کہا، "بیٹا، صرف ایک گھنٹہ۔" مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

پہلا مسئلہ تو یہ پیش آیا کہ عمران صاحب راستہ بھول گئے۔ وہ ایک سے دوسری سڑک پر نکلتے گئے مگر مقام تک پہنچنے کے نشانات نظر نہیں آ رہے تھے۔ دادی اماں نے کہا، "بیٹا، میں نے کہا تھا نا کہ نقشہ ساتھ لے لو۔" عمران صاحب نے جواب دیا، "امی، اب تو ہر کوئی جی پی ایس استعمال کرتا ہے۔" مگر ان کا فون تو گھر ہی رہ گیا تھا۔

آخرکار وہ ایک راستے پر نکلے جو جنگل کی طرف جا رہا تھا۔ درختوں کے درمیان ایک خوبصورت سا مقام نظر آیا تو انہوںںے وہیں رکنے کا فیصلہ کیا۔ جگہ واقعی بہت حسین تھی۔ سبزہ زار، چھوٹی سی ندی، اور پرندوں کی چہچہاہٹ۔ بچے فوراً گاڑی سے اتر کر دوڑنے لگے۔

ثناء نے چادر بچھائی اور کھانے کا سامان نکالنا شروع کیا۔ دادی اماں نے اپنی خاص چائے بنانے کا سامان تیار کیا۔ مگر ابھی وہ سب کام شروع ہی کرنے والے تھے کہ اچانک بادل چھا گئے۔ پہلے تو ہلکی ہلکی بوندیں پڑیں، پھر موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ سب لوگ بھاگ کر گاڑی میں پناہ لینے لگے۔ سامان کو بچاتے بچاتے سب کے کپڑے بھیگ گئے۔

گاڑی کے اندر بیٹھے بیٹھے بارش تھمنے کا انتظار کر رہے تھے۔ بچے اداس ہو رہے تھے۔ اتنے میں دادی اماں نے اپنا تھیلا کھولا اور اس میں سے بسکٹ اور کیک نکالا۔ "ارے بچو، یہ لو۔ پکنک تو ہم گاڑی میں بھی کر سکتے ہیں۔" بچوں کے چہرے پھر سے کھل اٹھے۔

جب بارش رکی تو سب باہر نکلے۔ زمین گیلی تھی مگر ہوا میں ایک خوشگوار تازگی تھی۔ ثناء نے کہا، "چلو، ابھی ہم کھانا کھا لیتے ہیں۔" سب نے مل کر کھانے کی میز لگائی۔ کھانا شروع ہی کیا تھا کہ چیونٹیوں کا ایک لشکر نمودار ہوا۔ وہ کھانے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ بچے چیخنے لگے۔

عمران صاحب نے فوراً چادر اٹھائی اور دوسری جگہ بچھائی۔ مگر چیونٹیاں تو ہر طرف پھیل چکی تھیں۔ دادی اماں نے اپنے تھیلے سے ہلدی نکالی اور اسے چاروں طرف بکھیر دیا۔ "یہ چیونٹیوں کو بھگا دیتی ہے،" انہوں نے بتایا۔ واقعی چیونٹیاں رک گئیں۔

کھانا کھاتے کھاتے سورج ڈھلنے لگا۔ عمران صاحب نے کہا، "چلو، اب واپس چلیں۔" مگر جب انہوںںے گاڑی سٹارٹ کی تو انجن نے آواز ہی نہیں دی۔ بارش میں گاڑی کے کچھ پرزے خراب ہو گئے تھے۔ سب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔

دادی اماں نے کہا، "گھبراؤ نہیں۔ ہمارے زمانے میں تو ہم پیدل ہی چلا کرتے تھے۔" عمران صاحب نے موبائل سے مدد بلانے کی کوشش کی مگر وہاں سگنل نہیں تھا۔ اب کیا ہوگا؟

اتنے میں حارث نے کہا، "ابو، وہ دیکھو! وہاں ایک بسیں کھڑی ہے۔" واقعی قریب ہی ایک بس اسٹینڈ تھا جہاں سے وہ شہر واپس جا سکتے تھے۔ سب نے سامان سمبھالا اور بس کی طرف چل پڑے۔

بس میں سفر کرتے ہوئے بچے تو خوش تھے مگر بڑے تھوڑے پریشان تھے۔ گاڑی تو وہیں کھڑی تھی۔ اگلے دن عمران صاحب کو مکانچے بلانا پڑے۔ مکانچے نے گاڑی ٹھیک کی تو پتہ چلا کہ ایک تار ڈھیلا ہو گیا تھا۔

گھر پہنچتے پہنچتے رات ہو گئی تھی۔ سب تھکے ہارے تھے مگر مسکرا رہے تھے۔ دادی اماں نے کہا، "دیکھا، یہ پکنک ہمیشہ یاد رہے گی۔ ہماری زندگی کی سب سے دلچسپ پکنک تھی۔"

بچے اگلے دن اسکول میں اپنے دوستوں کو پکنک کے واقعات سناتے رہے۔ انہیں تو سب سے زیادہ چیونٹیوں والا واقعہ پسند آیا تھا۔

آج بھی جب خاندان کے لوگ ملتے ہیں تو اس پکنک کا ذکر ضرور آتا ہے۔ اور ہر بار نئے انداز سے اسے یاد کر کے سب ہنستے ہیں۔ یہ پکنک ان کے خاندان کی سب سے مزے دار یاد بن گئی ہے۔

اس واقعے نے سب کو سکھایا کہ زندگی میں مشکلات آتی ہیں مگر اگر خاندان ساتھ ہو تو ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔ اور کبھی کبھی یہی مشکلات ہمارے لیے خوبصورت یادوں کا تحفہ بن جاتی ہیں۔

کہانی کیسے لگی؟

اپنا تبصرہ لکھیں

سعید احمد - ہاہاہا! چیونٹیوں والا حملہ تو مر گیا 😂 ہمارا بھی ایسا ہوا!
30 منٹ پہلے
رابعہ بیگم - واہ! ٹریکٹر والا جپٹر کمال 😍 بہترین پکنک کہانی!
1 گھنٹہ پہلے