سید صاحب اور راشد صاحب پڑوسی تھے مگر ان کے پالتو جانور ایک دوسرے کے بالکل برعکس تھے۔ سید صاحب کے پاس ایک تربیت یافتہ کتا تھا جس کا نام راجو تھا۔ راجو ہر حکم مانتا، گھر کی حفاظت کرتا، اور اپنے مالک کا ہر حکم بجا لاتا تھا۔ دوسری طرف راشد صاحب کی بلی مینو تھی جو ہر وقت شرارت میں مصروف رہتی۔ وہ فرنیچر نوچتی، پردے پھاڑتی، اور گھر میں ہر جگہ اپنا پنجہ آزمانے کی کوشش کرتی۔
ایک دن دونوں پڑوسیوں کے درمیان بات چیت ہوئی تو راشد صاحب نے کہا، "سید صاحب، آپ کا کتا تو بہت فرمانبردار ہے۔ میری بلی نے تو میرا پیچھا ہی چھڑا دیا ہے۔" سید صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، "آپ کی بلی بھی تو بہت چست ہے۔ میرے کتے میں تو کوئی جوش نہیں ہے۔" یہ سن کر راشد صاحب کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ "کیوں نہ ہم ایک ہفتے کے لیے اپنے پالتو جانوروں کا تبادلہ کر لیں؟ شائد میری بلی آپ کے گھر کی تربیت سے کچھ سیکھ لے۔"
سید صاحب نے سوچا کہ یہ اچھا خیال ہے۔ دونوں نے طے کیا کہ وہ اگلے ہفتے اپنے پالتو جانور عارضی طور پر بدل لیں گے۔ راشد صاحب نے مینو کو سید صاحب کے حوالے کیا اور سید صاحب نے راجو کو راشد صاحب کے پاس بھیج دیا۔ دونوں نے سمجھا کہ یہ ایک آسان تجربہ ہوگا، مگر انہیں اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔
پہلے دن ہی سید صاحب کے گھر میں قیامت برپا ہو گئی۔ مینو نے گھر میں داخل ہوتے ہی ایک اہم دستاویز کو پنجے سے نوچ ڈالا۔ پھر وہ کچن میں گئی اور فریج کے اوپر چڑھ گئی۔ سید صاحب نے اسے نیچے اتارنا چاہا تو مینو نے اس پر جھپٹ کر حملہ کر دیا۔ سید صاحب کی قمیض پھٹ گئی اور ان کے ہاتھ پر خراش آ گئی۔
ادھر راشد صاحب کے گھر میں راجو نے ایک عجیب مسئلہ کھڑا کر دیا۔ راشد صاحب نے اسے باہر لے جانے کے لیے دروازہ کھولا تو راجو باہر نہیں گیا بلکہ دروازے کے پاس بیٹھ گیا۔ راشد صاحب نے کہا، "باہر جاؤ راجو۔" راجو نے صرف دم ہلائی اور بیٹھا رہا۔ راشد صاحب کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔
دوسرے دن سید صاحب نے مینو کو تربیت دینے کی کوشش کی۔ انہوںے اسے بلایا، "مینو، ادھر آؤ۔" مینو نے ان کی طرف دیکھا اور اپنی دم اونچی کیے دوسری طرف چلی گئی۔ سید صاحب نے اس کے لیے دودھ کا پیالہ رکھا تو مینو نے اسے الٹ دیا۔ پورا فرش دودھ سے بھر گیا۔ سید صاحب نے صبر کیا اور فرش صاف کیا۔
راشد صاحب کے گھر میں راجو نے ایک نیا مسئلہ کھڑا کر دیا۔ وہ ہر آدھے گھنٹے بعد دروازے کے پاس جا کر بیٹھ جاتا، جیسے وہ باہر جانا چاہتا ہو۔ جب راشد صاحب دروازہ کھولتے تو راجو باہر نہیں جاتا تھا۔ راشد صاحب نے سید صاحب کو فون کیا، "سید صاحب، راجو تو دروازے کے پاس بیٹھا رہتا ہے۔ کیا مسئلہ ہے؟" سید صاحب نے ہنستے ہوئے جواب دیا، "وہ آپ سے کہہ رہا ہے کہ دروازہ بند رکھیں۔ وہ گھر کی حفاظت کر رہا ہے۔"
تیسرے دن سید صاحب کے گھر میں مینو نے ایک نیا کرشمہ دکھایا۔ وہ الماری کے اوپر چڑھ گئی اور وہاں سے نیچے کودتے ہوئے پڑوسی کے گملے پر جا گری۔ گملہ ٹوٹ گیا اور مینو بھاگ گئی۔ سید صاحب کو پڑوسی سے معافی مانگنی پڑی۔ شام کو مینو نے سوفے کو نوچنا شروع کر دیا۔ سید صاحب نے اسے روکنے کی کوشش کی تو مینو نے ان پر ہی حملہ کر دیا۔
راشد صاحب کے گھر میں راجو نے ایک اور عجیب حرکت کی۔ وہ راشد صاحب کے سامنے بیٹھ کر انہیں غور سے دیکھنے لگا۔ راشد صاحب نے اسے کھلانے کی کوشش کی مگر راجو نے کھانا نہیں کھایا۔ راشد صاحب پریشان ہو گئے۔ انہوںے سید صاحب کو فون کیا، "راجو کچھ کھا نہیں رہا۔" سید صاحب نے بتایا، "وہ آپ کے ساتھ کھانا چاہتا ہے۔ وہ اکیلا نہیں کھاتا۔"
چوتھے دن دونوں پڑوسیوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک دوسرے کے گھر جا کر دیکھیں گے کہ ان کے پالتو جانوروں کا کیا حال ہے۔ سید صاحب راشد صاحب کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ راجو دروازے پر پہرہ دے رہا ہے۔ جب سید صاحب نے دروازہ کھولا تو راجو نے خوشی سے ان کا استقبال کیا۔ راشد صاحب حیران رہ گئے۔
راشد صاحب جب سید صاحب کے گھر پہنچے تو انہوںے دیکھا کہ مینو فریج کے اوپر بیٹھی ہے اور سید صاحب اسے نیچے اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ راشد صاحب نے کہا، "مینو، ادھر آؤ۔" مینو فوراً نیچے آ گئی اور راشد صاحب کے پاس آ کر رگڑنے لگی۔ سید صاحب کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔
پانچویں دن سید صاحب نے مینو کے ساتھ نرمی سے پیش آنا شروع کیا۔ انہوںے اس کے لیے ایک کھلونا لیا اور اس کے ساتھ کھیلنا شروع کیا۔ مینو نے آہستہ آہستہ ان کی طرف دلچسپی لینی شروع کی۔ شام تک وہ سید صاحب کے پاس آ کر بیٹھنے لگی تھی۔
راشد صاحب نے راجو کو سمجھنے کی کوشش کی۔ انہوںے اس کے ساتھ باہر جانا شروع کیا اور اسے مختلف حکم دینے کی کوشش کی۔ راجو نے آہستہ آہستہ راشد صاحب کی آواز پہچاننی شروع کر دی۔
چھٹے دن دونوں پالتو جانوروں میں واضح تبدیلی آئی۔ مینو نے سید صاحب کے گھر میں شرارتیں کم کر دیں۔ وہ ان کے پاس بیٹھتی، انہیں دیکھتی، اور ان کے حکم پر کھیلتی۔ راجو نے راشد صاحب کے ساتھ گھلنا ملنا شروع کیا۔ وہ ان کے ساتھ کھانا کھاتا اور ان کے ساتھ باہر جانے لگا۔
ساتویں دن جب دونوں پالتو جانوروں کو واپس بدلا گیا تو ایک عجیب منظر تھا۔ مینو راشد صاحب کے پاس تو گئی مگر بار بار سید صاحب کے گھر کی طرف دیکھتی رہی۔ راجو سید صاحب کے ساتھ تھا مگر وہ بھی راشد صاحب کی طرف دیکھ رہا تھا۔
اس تجربے کے بعد دونوں پڑوسیوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ہفتے میں ایک دن اپنے پالتو جانوروں کا تبادلہ کریں گے۔ اس سے دونوں جانوروں میں بہتری آئی۔ مینو نے کچھ نظم و ضبط سیکھا اور راجو نے کچھ چستی حاصل کی۔
آج دونوں پڑوسی ایک دوسرے کے قریب آ گئے ہیں۔ وہ اکٹھے بیٹھتے ہیں، اپنے پالتو جانوروں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں، اور ان کی تربیت کے بارے میں بات چیت کرتے ہیں۔ مینو اور راجو بھی ایک دوسرے کے دوست بن گئے ہیں۔
اس تجربے نے ثابت کیا کہ بعض اوقات تبدیلی اچھی ہوتی ہے۔ دونوں پالتو جانوروں نے نئی چیزیں سیکھیں اور دونوں مالکوں نے اپنے پالتو جانوروں کو بہتر طور پر سمجھنا سیکھا۔ اب سید صاحب اور راشد صاحب دونوں کہتے ہیں کہ یہ ان کا بہترین تجربہ تھا جس نے نہ صرف ان کے پالتو جانوروں کو بلکہ ان کی دوستی کو بھی مضبوط کیا۔
اپنا تبصرہ لکھیں