کہانی گھر

بیوی کا جنم دن

عارف نے اپنی بیوی ثناء کے جنم دن کو بار بار بھولنے کے بعد آج ہر قیمت پر اسے یاد رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس نے رات ہی سے تیاری شروع کر دی۔ پہلے اس نے اپنے ہاتھ کی کلائی پر سرخ روشنائی سے بڑے بڑے حروف میں لکھا "آج ثناء کا جنم دن ہے"۔ پھر اس نے اپنے ہاتھ کے پچھلے حصے پر بھی یہی جملہ لکھا تاکہ جب بھی وہ ہاتھ اٹھائے گا، اسے یاد آ جائے گا۔

صبح اٹھتے ہی عارف نے فون کی ایپ میں ریمائنڈر سیٹ کیا، فریج پر ایک بڑا سا اسٹیکر چپکایا جس پر لکھا تھا "ثناء کا جنم دن - کیک ضرور لے آنا"، اور اپنے دفتر کی میز پر بھی ایک نوٹ لگا دیا۔ اس نے اپنے بٹوے میں بھی ایک چھوٹا سا کاغذ رکھا جس پر اس نے سرخ قلم سے تاریخ لکھی تھی۔ عارف کو پورا یقین تھا کہ اس بار وہ ہرگز نہیں بھولے گا۔

نہاتے وقت عارف نے اپنے ہاتھ پر لکھے ہوئے الفاظ کو بچانے کی پوری کوشش کی۔ اس نے احتیاط سے ہاتھ دھویا اور جلد ہی دیکھا کہ الفاظ ابھی تک واضح ہیں۔ وہ خوشی خوشی باتھ روم سے باہر آیا تو ثناء نے پوچھا، "ارے، تمہارے ہاتھ پر یہ کیا لکھا ہے؟" عارف نے فوراً ہاتھ چھپا لیا اور بولا، "کچھ نہیں، بس ایک ضروری نوٹ ہے۔"

دفتر پہنچ کر عارف نے سب سے پہلے اپنے کولگ کو بتایا، "بھئی آج میں جلدی جانا چاہتا ہوں، میری بیوی کا جنم دن ہے۔" اس نے یقینی بنایا کہ دفتر کے تین لوگوں کو اس بات کا علم ہو۔ پھر اس نے اپنے فون میں دوپہر بارہ بجے کا الارم لگایا تاکہ وہ کیک اور تحفہ خریدنے کے لیے مارکیٹ جا سکے۔

دفتر میں مصروفیت کے دوران عارف نے ہر گھنٹے بعد اپنے ہاتھ پر لکھے ہوئے الفاظ کو دیکھا۔ وہ خوش تھا کہ اس بار سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے۔ دوپہر کو جب فون کا الارم بجا تو وہ فوراً اٹھا اور مارکیٹ کی طرف چل پڑا۔ راستے میں اسے اپنے ہاتھ پر لکھے ہوئے الفاظ نظر آئے تو اسے اطمینان ہوا۔

بیکری میں جا کر عارف نے ایک خوبصورت سا کیک آرڈر کیا جس پر "ہیپی برتھڈے ثناء" لکھوانے کا کہا۔ پھر وہ قریب کی جیولری شاپ میں گیا اور ثناء کے لیے ایک خوبصورت ہار خریدا۔ وہ بہت خوش تھا کہ اس بار سب کچھ پلان کے مطابق ہو رہا ہے۔

دفتر واپس آ کر عارف نے کیک اور تحفہ اپنے لاکر میں رکھا۔ اس نے اپنے ہاتھ پر لکھے ہوئے الفاظ کو دوبارہ دیکھا جو تھوڑے ہلکے پڑ گئے تھے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ انہیں دوبارہ لکھ لے گا۔ وہ باتھ روم کی طرف جا رہا تھا کہ اچانک اس کا باس ملا جس نے فوراً کسی ضروری میٹنگ کے لیے بلایا۔

میٹنگ کے دوران عارف نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ کا لکھا ہوا نشان تقریباً مٹ چکا ہے۔ اسے گھبراہٹ ہونے لگی۔ میٹنگ ختم ہوتے ہی وہ فوراً اٹھا اور باتھ روم کی طرف بھاگا۔ اس نے اپنے ہاتھ پر دوبارہ لکھنے کی کوشش کی مگر قلم کام نہیں کر رہا تھا۔

شافٹ ختم ہونے پر عارف نے لاکر سے کیک اور تحفہ نکالا۔ وہ گھر کی طرف خوشی خوشی جا رہا تھا کہ اچانک اسے یاد آیا کہ اس نے ثناء کے لیے پھول نہیں خریدے۔ وہ فوراً پھول والے کی دکان پر رکا اور گلابوں کا ایک خوبصورت گلدستہ خریدا۔

گھر پہنچ کر عارف نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ ثناء نے دروازہ کھولا تو عارف نے خوشی سے چلّا کر کہا، "ہیپی برتھڈے میری پیاری بیوی!" ثناء نے حیران ہو کر اسے دیکھا، پھر مسکرا کر کہا، "شکریہ پیارے، مگر تمہیں پتہ ہے کہ میرا جنم دن کل ہے؟"

عارف کا چہرہ اتر گیا۔ وہ سمجھ گیا کہ اس نے تاریخوں کا غلط حساب لگا لیا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ پر لکھے ہوئے الفاظ کو دیکھا جو اب بالکل مٹ چکے تھے۔ ثناء نے اس کی پریشان صورت دیکھی تو ہنس پڑی۔ "ارے بیوقوف، تم نے پھر بھولنے کی کوشش کی تھی نا؟ اس لیے یہ سب کچھ کیا۔"

عارف نے شرماتے ہوئے کیک، تحفہ اور پھول ثناء کے حوالے کیے۔ ثناء نے کہا، "چلو کوئی بات نہیں، تم نے پہلی بار میرا جنم دن یاد رکھنے کی کوشش کی ہے۔ یہی بہت ہے۔" اس نے کیک کا ڈبا کھولا اور حیران رہ گئی۔ "ارے، اس پر تو کل کی تاریخ لکھی ہے!"

عارف نے بتایا کہ اس نے بیکری والے کو آج کی تاریخ لکھوانی چاہی تھی مگر وہ بھول گیا۔ ثناء نے ہنس کر کہا، "ٹھیک ہے، ہم آج ہی منا لیتے ہیں۔ کل تم پھر بھول جاؤ گے۔" دونوں ہنسنے لگے۔

رات کے کھانے پر عارف نے ثناء کو ریستوران لے جانے کا وعدہ کیا۔ ثناء نے کہا، "کل کے لیے؟" عارف نے فوراً جواب دیا، "نہیں، آج کے لیے! میں تمہارا جنم دن آج ہی منانا چاہتا ہوں۔"

ریستوران میں بیٹھے ہوئے ثناء نے عارف سے پوچھا، "تم نے یہ سب یاد رکھنے کے لیے کیا کیا تھا؟" عارف نے اپنے ہاتھ دکھائے، فون کے ریمائنڈرز بتائے، اور فریج پر لگے اسٹیکر کا ذکر کیا۔ ثناء نے نرمی سے کہا، "پیارے، تمہیں یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس دل سے چاہو تو خود بخود یاد رہے گا۔"

گھر واپسی پر عارف نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ ہمیشہ اس کا جنم دن یاد رکھے گا۔ ثناء نے مسکراتے ہوئے کہا، "میں تمہاری ہر کوشش کو سراہتی ہوں، چاہے تم تاریخ ہی کیوں نہ بھول جاؤ۔"

اگلے دن صبح عارف نے دیکھا کہ ثناء نے اس کے ہاتھ پر ہلکے سے لکھا تھا "کل میرا جنم دن تھا"۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنس پڑے۔ عارف نے کہا، "اب میں ہر سال تمہارا جنم دن نہیں بھولوں گا۔" ثناء نے جواب دیا، "اور اگر بھول بھی گئے تو کوئی بات نہیں، ہم ہر روز ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں، یہی اصل بات ہے۔"

اس واقعے کے بعد عارف نے ہمیشہ ثناء کے جنم دن کو یاد رکھا۔ اور جب کبھی وہ تاریخ بھولنے لگتا تو ثناء اسے مذاق میں یاد دلا دیتی، "ہاتھ پر لکھ لو پھر سے۔" دونوں کی یہ محبت بھری چھوٹی چھوٹی بھول ان کے رشتے کو مضبوط بناتی رہی۔

کہانی کیسے لگی؟

اپنا تبصرہ لکھیں

عمران بھائی - ہاہاہا! "شادیہ کیک" والا مر گیا 😂 میرا بھی کل کا جنم دن ہوا!
3 منٹ پہلے
عائشہ بیگم - واہ! سوئٹ سیٹ خیمہ 😍 شفیق کو شوہر ایوارڈ!
12 منٹ پہلے