کہانی گھر

جادوئی عینک

طارق کو ایک پرانی انٹیک شاپ کے گوشے میں ایک عجیب سی عینک ملی تھی۔ دھول میں اٹی ہوئی یہ عینک ایک پرانے صندوق کے نیچے دبی ہوئی تھی۔ دکاندار نے اسے مفت میں دے دیا کہ "یہ تو کسی کام کی نہیں ہے"۔ لیکن طارق کو اس عینک نے اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس پر عجیب و غریب نشانات تھے اور اس کا فریم ایک ایسے دھات کا بنا ہوا تھا جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

جب طارق نے گھر جا کر عینک کو صاف کیا اور اسے پہنا تو اسے ایک حیرت انگیز چیز کا پتہ چلا۔ وہ دوسروں کے خیالات سن سکتا تھا! پہلی بار اس نے اپنی بیوی ثناء کے ذہن میں سنا: "کاش طارق آج گھر جلد آتا اور میرے ہاتھ کا بنیا ہوا کوفتا کھاتا۔" طارق نے فوراً کہا، "ارے ثناء! کیا تم نے آج کوفتا بنایا ہے؟ مجھے تو اس کی بہت خواہش تھی۔" ثناء حیران رہ گئی۔ "تمہیں کیسے پتہ چلا؟ میں نے تو تمہیں بتایا ہی نہیں تھا۔"

اگلے دن دفتر میں طارق نے اپنے باس کے خیالات سنے۔ باس سوچ رہے تھے: "مجھے آج کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے جو کلائنٹ میٹنگ میں میرے نکتوں کو بہتر طریقے سے پیش کر سکے۔" طارق نے فوراً پیشکش کی، "سر، اگر اجازت ہو تو میں آج کی میٹنگ میں آپ کا ساتھ دوں؟ میں نے اس پراجیکٹ کے بارے میں کچھ نئے آئیڈیاز تیار کیے ہیں۔" باس بہت متاثر ہوئے۔

طارق کی زندگی میں ایک نیا موڑ آ گیا تھا۔ وہ ہر کسی کو اس کی خواہشات کے مطابق چیزیں پیش کرتا۔ دوستوں کے ساتھ ہنگ آؤٹ میں وہ ان کی پسند کے کھانے آرڈر کرتا۔ محلے داروں کے ساتھ وہ ان کے دل کی بات کہہ دیتا۔ سب لوگ اسے "سائیکالوجسٹ طارق" کہنے لگے۔ اس کی مقبولیت آسمان کو چھونے لگی۔

لیکن دو ہفتے بعد مسئلہ شروع ہوا۔ عینک کا جادو کمزور پڑنے لگا۔ پہلی بار یہ ہوا کہ طارق نے اپنے دوست کے ذہن میں سنا: "مجھے آج شام فلم دیکھنی ہے۔" طارق نے فوراً کہا، "چلو ہم بھی تمہارے ساتھ چلتے ہیں۔" دوست نے حیران ہو کر کہا، "لیکن میں تو ہسپتال جا رہا ہوں، میری والدہ کا آپریشن ہے۔" طارق شرمندہ ہوا۔

پھر ایک اور واقعہ پیش آیا۔ دفتر میں طارق نے اپنی ساتھی رابعہ کے ذہن میں سنا: "یہ پراجیکٹ مکمل کرنا ہے۔" طارق نے کہا، "رابعہ، تم پراجیکٹ کی فکر مت کرو، میں تمہاری مدد کر دوں گا۔" رابعہ غصے میں بولی، "طارق! میں تو پراجیکٹ کے بارے میں بالکل نہیں سوچ رہی تھی۔ میں اپنی بیمار بہن کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ تمہیں کیسے پتہ چلا میں پراجیکٹ کے بارے میں سوچ رہی ہوں؟"

صورتحال دن بہ دن بدتر ہوتی گئی۔ طارق نے اپنے باس کے ذہن میں سنا: "میں اس آدمی کو پروموٹ کرنا چاہتا ہوں۔" طارق نے سوچا یہ اس کے بارے میں ہے۔ اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ جلد ہی ترقی پانے والا ہے۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ باس کسی اور کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ طارق کی شرمندگی کا ٹھکانہ نہ رہا۔

ایک دن طارق نے اپنی بیوی کے ذہن میں سنا: "مجھے طلاق چاہیے۔" طارق گھبرا گیا۔ اس نے ثناء سے پوچھا، "کیا تم مجھے چھوڑ کر جا رہی ہو؟" ثناء حیران رہ گئی۔ "تمہیں یہ خیال کیسے آیا؟ میں تو سوچ رہی تھی کہ ہمارے پڑوسی طلاق لے رہے ہیں۔" طارق کو احساس ہوا کہ عینک اب بالکل غلط معلومات دے رہی ہے۔

آخرکار طارق نے فیصلہ کیا کہ وہ اس عینک کو استعمال کرنا بند کرے گا۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ وہ اب اس کے بغیر لوگوں کے خیالات جاننے کا عادی ہو چکا تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ اس نے اپنی اصل صلاحیتوں کو بھولنا شروع کر دیا ہے۔ وہ لوگوں کے چہرے پڑھنا، ان کی باتوں کو سمجھنا بھول گیا تھا۔

طارق نے عینک کو واپس اس پرانی دکان میں رکھنے کا فیصلہ کیا۔ جب وہ عینک واپس کرنے گیا تو دکاندار نے مسکراتے ہوئے کہا، "تم ساتویں شخص ہو جو اس عینک کو واپس لے کر آئے ہو۔ یہ ہر سات سال بعد کسی نہ کسی کو مل جاتی ہے اور پھر وہ اسے واپس لے آتا ہے۔" طارق نے حیران ہو کر پوچھا، "ایسا کیوں ہوتا ہے؟" دکاندار نے کہا، "کیونکہ یہ عینک انسانوں کو سکھاتی ہے کہ دوسروں کے خیالات جاننا اتنا اہم نہیں جتنا ان کی باتوں کو سننا اور ان کے جذبات کو سمجھنا ہے۔"

طارق کو زندگی کا ایک اہم سبق ملا۔ اس نے سیکھا کہ اصل تعلق تو لوگوں کے ساتھ براہ راست بات چیت سے بنتا ہے، نہ کہ ان کے ذہن پڑھ کر۔ اس نے اپنی بیوی سے معافی مانگی اور سچے دل سے اس کی باتوں کو سننا شروع کیا۔ دفتر میں اس نے اپنے کام پر توجہ دینی شروع کی۔

کچھ عرصے بعد طارق نے محسوس کیا کہ بغیر عینک کے وہ لوگوں کو پہلے سے بہتر سمجھ پا رہا ہے۔ وہ ان کے چہروں کے تاثرات، ان کی آواز کے اتار چڑھاؤ اور ان کے جسمانی زبان کو بہتر طور پر سمجھنے لگا۔ اس کی بیوی نے ایک دن کہا، "طارق، تم پہلے سے کہیں بہتر ہو گئے ہو۔ تم واقعی میری بات سنتے ہو اور مجھے سمجھتے ہو۔"

طارق نے سوچا کہ شاید یہی تھا اصل جادو - ایک دوسرے کو سننا، سمجھنا اور اس کی قدر کرنا۔ عینک کا جادو تو عارضی تھا، لیکن دوسروں کے ساتھ حقیقی تعلق قائم کرنا ہی اصل کمال تھا۔

آج طارق کی زندگی پہلے سے کہیں بہتر ہے۔ وہ لوگوں کے ساتھ گہرے تعلقات استوار کر پا رہا ہے۔ اور جب کبھی وہ اس پرانی عینک کے بارے میں سوچتا ہے تو مسکرا دیتا ہے، کیونکہ اس نے اسے زندگی کا وہ سبق سکھایا جو کوئی اور چیز نہیں سکھا سکتی تھی۔

کہانی کیسے لگی؟

اپنا تبصرہ لکھیں

واصف چوہدری - ہاہاہا! "قمقہ" والا مر گیا 😂 میری بیوی کا خیال بھی سن لو!
2 منٹ پہلے
مرزا بیگم - واہ! "فائر" والا باس 😍 عامر کو جادوئی ایوارڈ!
8 منٹ پہلے