کہانی گھر

گمشدہ سرمایہ کار

طارق بس اسٹاپ پر کھڑا اپنی آفس بس کا انتظار کر رہا تھا کہ اچانک ایک شاندار سیڈان کار اس کے سامنے رکی۔ کار سے ایک صاحب فوری طور پر باہر نکلے اور انہوں نے طارق کے ہاتھ میں زور سے ہلایا۔ "سر! آپ کو آخرکار ہم نے ڈھونڈ ہی لیا۔ ہم آپ کے پروجیکٹ کی فنڈنگ کے لیے بہت پرجوش ہیں۔" طارق حیران رہ گیا۔ اس نے کبھی ان صاحب کو نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی اس کا کوئی پروجیکٹ تھا۔

ان صاحب نے طارق کو اپنی کار میں بٹھا لیا۔ "میں احمد خان ہوں، وینچر کیپٹلسٹ۔ ہمیں پتہ چلا ہے کہ آپ ایک بڑا سرمایہ کار ہیں اور آپ نئے کاروباری منصوبوں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔" طارق نے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ تو ایک چھوٹے سے آفس میں کلرک ہے، مگر احمد خان نے اس کی بات کو скромیت سمجھا۔ "سر، آپ جیسے بڑے لوگ ہمیشہ سادہ زندگی گزارتے ہیں۔"

کار ایک عالیشان ہوٹل کے سامنے رکی۔ احمد خان نے طارق کو ایک شاندار کانفرنس روم میں لے جا کر بٹھایا جہاں پہلے سے ہی کئی کاروباری افراد موجود تھے۔ سب نے مل کر طارق کا پرتپاک استقبال کیا۔ ایک صاحب نے کہا، "سر، ہمیں آپ کی شہرت کے بارے میں پتہ چلا ہے۔ آپ نے گزشتہ سال جو سرمایہ کاری کی تھی، وہ بہت مشہور ہوئی تھی۔" طارق سمجھ گیا کہ یہ سب کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے، مگر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس موقع سے لطف اٹھائے گا۔

پہلے کاروباری نے اپنا پرزے دار منصوبہ پیش کیا۔ "سر، میرا ایک ایسا آئیڈیا ہے جس سے پورے پاکستان میں انقلاب آ جائے گا۔ میں بانس سے کار بنانے کا منصوبہ لے کر آیا ہوں۔" طارق نے گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے انداز میں سر ہلایا۔ "بہت دلچسپ آئیڈیا ہے، مگر کیا بانس کی کار کا انجن بانس کا ہی ہوگا؟" اس سوال پر پورا کمرہ ہنس پڑا۔

دوسرے کاروباری نے اپنا منصوبہ پیش کیا۔ "میں ایک ایسی ایپ بنا رہا ہوں جو بلیوں اور کتوں کی زبان کو انسانی زبان میں ترجمہ کرے گی۔" طارق نے سنجیدہ ہو کر پوچھا، "اور اگر بلی صرف 'میاؤ' ہی کہے گی تو آپ اس کا ترجمہ کیا کریں گے؟" اس سوال پر پیش کرنے والا کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا۔

تیسرے کاروباری نے ایک اور انوکھا منصوبہ پیش کیا۔ "سر، میں ایک ایسی کمپنی بنا رہا ہوں جو بارش کے پانی کو ذخیرہ کر کے اسے معدنی پانی کے طور پر بیچے گی۔" طارق نے مسکراتے ہوئے کہا، "بہت اچھا خیال ہے، مگر کیا آپ نے سوچا ہے کہ جب بارش نہیں ہوگی تو آپ کیا کریں گے؟"

یہ سلسلہ کئی گھنٹے چلتا رہا۔ ہر کوئی طارق کو اپنا اپنا منصوبہ دکھا رہا تھا۔ طارق ہر منصوبے پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرتا اور ایسے سوالات پوچھتا جو ان کے منصوبوں کی کمزوریاں ظاہر کر دیتے۔ اس کے باوجود سب یہی سمجھتے رہے کہ وہ ایک بڑے سرمایہ کار ہیں جو ان کے منصوبوں کو پرکھ رہے ہیں۔

دوپہر کے وقت احمد خان نے طارق کو ہوٹل کے عالیشان ریستوران میں لے جا کر کھانا کھلایا۔ کھانے کے دوران احمد خان نے طارق سے پوچھا، "سر، آپ نے تو اب تک کسی منصوبے میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ کیا آپ کو کوئی ایسا منصوبہ چاہیے جو واقعی انوکھا ہو؟" طارق نے ہلکا سا مسکرا کر جواب دیا، "میں تو بس دیکھ رہا ہوں کہ لوگوں کے پاس کتنے تخلیقی خیالات ہیں۔"

شام ہوتے ہوتے طارق کے پاس مزید کئی کاروباری افراد آئے۔ ایک نے ایسے جوتے بنانے کا منصوبہ پیش کیا جو چلتے چلتے موبائل فون چارج کر سکیں۔ دوسرے نے ایسی قمیض بنانے کا آئیڈیا دیا جو پسینہ سونگھ کر اس کی بو ختم کر دے۔ تیسرے نے ایسا تکیہ بنانے کا منصوبہ پیش کیا جو سوتے وقت خوابوں کو ریکارڈ کر سکے۔

طارق ان تمام منصوبوں کو سن کر حیران تھا کہ لوگ کس طرح کے خیالات لے کر آ رہے ہیں۔ وہ ہر ایک کو یہ کہہ کر رخصت کرتا کہ وہ ان کے منصوبوں پر غور کریں گے۔ درحقیقت وہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں سے متاثر تھا، چاہے ان کے خیالات کتنے ہی عجیب و غریب کیوں نہ ہوں۔

اچانک ہوٹل کے کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک اور صاحب داخل ہوئے۔ انہوں نے براہ راست طارق سے مخاطب ہو کر کہا، "میں سمجھتا ہوں کہ یہاں کوئی میرا ہم نام ہے۔ میں وہ طارق احمد ہوں جس کی آپ سب کو تلاش ہے۔" سارے کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ اصل سرمایہ کار آ چکا تھا۔

طارق نے اٹھ کر اصل سرمایہ کار کا ہاتھ ملایا۔ "خوش آمدید۔ میں تو بس آپ کا انتظار کر رہا تھا۔" اس نے سب کو سمجھایا کہ یہ سب ایک غلط فہمی تھی اور وہ تو بس ایک عام کلرک تھا جو بس اسٹاپ پر کھڑا تھا۔ سب لوگ حیران رہ گئے۔

اصل سرمایہ کار طارق احمد نے سب کو بتایا کہ وہ واقعی نئے کاروباری منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے طارق کی طرف دیکھا اور مسکرا کر کہا، "آپ نے تو میری طرف سے بہت اچھا کام کیا ہے۔ کیا آپ میرے ساتھ کام کرنا چاہیں گے؟ آپ میں تو سرمایہ کار بننے کی تمام صلاحیتیں ہیں۔"

طارق نے یہ پیشکش قبول کر لی۔ اس واقعے نے اس کی زندگی بدل دی۔ آج وہ ایک کامیاب سرمایہ کار ہے اور ہمیشہ نوجوان کاروباریوں کی مدد کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس کی کامیابی کا راز اس دن کی غلط فہمی ہے جب لوگوں نے اسے سرمایہ کار سمجھ لیا تھا۔

آج بھی جب وہ نئے کاروباری منصوبے سنتا ہے تو مسکراتا ہے اور کہتا ہے، "کون جانتا ہے، شاید ان میں سے کوئی منصوبہ بھی ایسا ہو جو میری زندگی بدل دے، جیسے اس دن کی غلط فہمی نے میری زندگی بدل دی تھی۔"

کہانی کیسے لگی؟

اپنا تبصرہ لکھیں

شفیق بھائی - ہاہاہا! "چکنوں کے نام" والا مر گیا 😂 میری دکان بھی لگا دو!
1 منٹ پہلے
سحر بیگم - واہ! چائے والا 2 کروڑ 😍 راشد کو بزنس گورو ایوارڈ!
6 منٹ پہلے